بے گناہ
(سائیں سُچّا)

شاہ جی، حسبِ معمول، ناشتے سے پہلے، دھیان گیان سے فارغ ہوئے ہی تھے جب ننھا سکول جاتے جاتے رک گیا اور پاس آ کر آنکھوں میں تجسس بھرے اُن سے پوچھنے لگا، "دادوُ  جی، آج بھی آپ نے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی؟"
"بیٹا وہ تو ہر انسان کو روزانہ مانگنی چاہئے!"
بچے کی آنکھوں میں تجسس اور گہرا ہو گیا، "دادوُ ابا، آپ نے کون کون سے گناہ کئے ہیں جن کی آپ معافی مانگتے ہیں؟"
ایک لمحے کے لئے تو شاہ جی چکرا سے گئے۔ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ بچے کو کیا جواب دیں۔ پہلا جواب تو ذہن میں یہی اُبھرا تھا کہ "بچے ایسے سوال نہیں کیا کرتے"، لیکن یہ الفاظ اُن کی زبان سے خارج ہونے کی بجائے پھسل پھسل کر حلق میں واپس لوٹتے رہے۔ اس حد تک کہ دو مرتبہ اپنے لعاب کی مدد سے اُنہیں نگلنا بھی پڑا۔
بچہ مسلسل اُن کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"بیٹا ابھی تو تم سکول جاؤ، شام کو گفتگو ہو گی،" یہ کہہ کر انہوں نے اُس کٹھن لمحے کو ٹالنا چاہا۔
"ٹھیک ہے دادوُ ابا، آج شام کوبتائیے گا،" کہہ کر بچہ، اپنے سوالوں کو آنکھوں میں مقید کئے، باہر چلا گیا۔
شاہ جی نے آنکھیں بند کر کے چند گہرے سانس لئے، پھر ارد گرد دیکھا کہ کون کون سُن رہا تھا۔ کوئی نظر نہ آیا، سوائے پنجرے میں بند مٹھو میاں کے۔ مٹھو میاں بہت انہماک سے شاہ جی کو تاڑ رہے تھے جو کہ اُنہیں بالکل پسند نہیں آیا ۔ ایک بولنے والے طوطے کا کیا اعتبار، جب چاہے آنکھیں بدل کر جو جی میں آئے بیان دے دے!

شاہ جی کو کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کہ اُنہوں نے پہلا گناہ کب کیا تھا۔ بچپن اور ابتدائی لڑکپن میں تو کچھ ممکن تھا ہی نہیں کیونکہ اُن کے ابائی گھر کا ماحول ہی ایسا تھا۔ بڑے شاہ جی نے بیٹھک میں اپنے معبود کا نام ایک فریم میں سنہری حروف میں لکھوا کر دیوار پر لگا رکھا تھا، جس کے کچھ نیچے ایک ٹائر سول کا بڑا جوتا کیل پر لٹکا رہتا۔ چنانچہ، شیطان تو کیا اُس کا کوئی مرید بھی وہاں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ نہ ہی انہوں نے کبھی کسی مولوی
کو اپنے گھر بُلایا  تھا؛ وہ سب دینی فرائض خود ہی ادا کرتے تھے۔ اور نہ ہی اُن کے گھر کے دائیں بائیں کسی سرزش کے امکانات تھے۔ دائیں طرف خالہ شمیم کا گھر تھا اور بائیں طرف پھوپی زبیدہ کا۔ اُن اور اُن کی بیٹیوں کا روپ ہی کچھ ایسا تھا کہ شاہ جی کا ذہن کسی بھی گناہ کی خواہش سے کورا  رہا۔ اور جب سے پھوپی کی بڑی بیٹی شاہدہ نے کھیل کے دوران شاہ جی کو دھوبی پٹرا مار کر پٹخا تھا تب سے شاہ جی کو نہ صرف اپنی مردانگی پر شبہ بلکہ شاہدہ کی نسوانیت پر بھی یقین نہیں رہا تھا۔ ویسے بھی لگتا تھا اُن کے خالق نے انہیں تقریباً ہر خاصیت کی بہتات سے ہاتھ روک کر بنایا تھا -- اُن کی شکل دیکھ کر کوئی بھی کسی طرح سے انہیں بدصورت نہیں کہہ سکتا تھا، لیکن خوبصورت کہنا بھی اتنا ہی غیرمناسب ہوتا، بس یہ کہئیے کہ وہ ٹھیک ٹھاک تھے۔ اُن کے بدن کی ساخت بھی کچھ یوں تھی کہ کسی بھی زیادتی کرنے سے پہلے ہی ہر تشدد پسند کو یہ خدشہ پڑ جاتا کہ کہیں بعد میں اُس پر قتل کا الزام نہ لگ جائے۔
سکول اور کالج کے زمانہ میں بھی، جب اکثر نوجوان بہت سی غلطیاں کرتے ہیں، شاہ جی اخلاقی اور جسمانی طور پر باکل کنوارے رہے تھے۔

وہ ابھی تذبذب میں ہی تھے کہ شاہنی جی اُن کے پاس آئیں اور پوچھا ، "کیا بات ہے، آپ بہت گہری سوچ میں ہیں آج؟"
"ہاں ۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ ننھے نے آج صبح ایک عجیب سا سوال کیا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اُسے کیا جواب دوں۔"
"کیسا سوال؟"
"پوچھ رہا تھا کہ میں نےکون کون سے گناہ کئے ہیں۔"
"آپ نے گناہ؟" شاہنی نے شاہ جی کو یوں دیکھا جیسے کوئی فِکر مند مرغی اپنے انڈے سے پھوٹتے چوزے کو دیکھے جس پر باہر نکلتے ہی چونچیں لڑانے کا الزام لگ جائے۔
"ہاں، وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ میں کن گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔"
شرم سے سرخی کی ایک لہر شاہنی کے چہرے سے گزر گئی، پھر وہ وہاں سے پلٹتے ہوئے بولی، "ہمیں بھی بتائیے گا جب کوئی ایسی زیادتی دریافت ہو جائے۔"
شاہ جی اگر اُس وقت گہری سوچ میں نہ ہوتے تو وہ بھی شاہنی کے لہجے میں پوشیدہ طنز کو ضرور محسوس کر لیتے۔

یہ اُن کے والد محترم کی مہربانی تھی کہ انہوں نے پہلے تو اپنے رسوخ سے بیٹے کو کام دلوایا اور ساتھ ہی ساتھ گھر میں ایک خوش طبعیت بہو کا اضافہ بھی کر لیا۔ دوسرے الفاظ میں شاہ جی بِلا کسی محنت کئے روٹی کے معاملہ میں ہر طرح سے خود کفیل ہو گئے تھے۔ سہاگ رات میں بھی شاہ جی نے اپنے ذہن کو وصلِ حلال کے دوران خرافات سے پاک اور فرائض پر مرکوز رکھا تھا۔ اُن کے لئے اُس رات سب سے بڑی الجھن تو اُن آیات کا یاد رکھنا تھا جو اُنہیں خاص طور پر خالو محسن نے رٹوائیں تھیں کہ کس عمل کے ساتھ کیا پڑھنا ہے اورپھر کیسے پھونکنا ہے۔ تبھی تو شاہنی جی نے اگلی صبح اُن سے شرماتے شرماتے پوچھا تھا کہ کیا اُنہیں دمہ کی شکایت ہے۔

وقت کے بہاؤ کے ساتھ نہ صرف شاہ جی کا بیٹا پیدا ہوا بلکہ اُن ہی لہروں میں اُنہیں ایک پوتا بھی مِلا۔
یہ اُن کی عادت میں شامل تھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد کچھ وقت عبادت میں بھی گزارا کرتے تھے۔ اُن کے اپنے بیٹے نے تو اُن کی اس کاروائی میں دلچسپی دکھانے سے گریز کیا تھا البتہ بیٹے کا بیٹا کئی مرتبہ اُن سے پوچھ چکا تھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے کیا بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ مختلف اوقات پر شاہ جی نے بچے کو مختلف جواب دئے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگا کرتے ہیں۔

اور آج جب بچے نے اُن سے سوال کیا تو اُنہیں کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ آج تک کِن گناہوں کی معافی مانگتے رہے ہیں۔

شام کو جب ننھا سکول سے لوٹا تو وہ سیدھا شاہ جی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کی آنکھوں میں تجسس اب بھی قائم تھا، اور چہرے پر ایک ہلکی سی مسکان بھی۔
شاہ جی نے بچے کے معصوم چہرے کی جانب دیکھا اور پھر بہت پیار سے کہا، " ننھے، تم نے پوچھا تھا نا کہ میں کِن کِن گناہوں کی معافی مانگتا ہوں؟"
"جی دادوُ
 ابا!"
"دیکھو یہاں پر ایک مُصلّا بِچھا رہتا تھا۔ وہ آج تک یہاں بِلا وجہ ہی بچھا رہا
۔ میں نے اُسے آج لپیٹ کر اوپر رکھ دیا ہے۔ "